مسیحا مر گیا ہے
اور عیسیٰ بھی —
بغیر صلیب کے،
بغیر معجزے کے،
خامشی میں
دفن ہو گیا۔
میں نے خواب دیکھنا
چھوڑ دیے ہیں —
خواب…؟
جن میں روشنی ہوتی تھی،
یا کبھی کوئی در کھلتا تھا —
اب وہ خواب
بند کمروں میں
دم گھٹ کر مر چکے ہیں۔
میں انسان ہوں —
یا وہ مٹی
جو بارش کو ترستی ہے؟
شاید…
انسان بھی مر گیا ہے۔
نفس کی سرکس میں
جہاں خواہشیں جانوروں کی طرح ناچتی ہیں،
میں نے کئی بار
اپنے ضمیر کو روتے دیکھا —
پھر ایک دن
وہ چپ ہو گیا…
اور پھر
کبھی بولا نہیں۔
فرشتے —
جو کبھی خوابوں میں آتے تھے،
اب آسمانوں پر کھو گئے ہیں،
یا شاید…
ہم نے ان کے دروازے
خود بند کر دیے۔
شہر —
ڈرا ہوا،
سویا ہوا،
بھیڑ میں لپٹا ہوا —
کسی سنسان قبرستان کی مانند
دھڑک رہا ہے۔
کوئی نہیں جانتا
کہ وہ کون تھا
جس نے چراغ جلائے تھے۔
اب وہ خود
اندھیروں میں کھو گیا ہے۔
اور کل —
ایک کفر نے کہا:
"خُدا مر گیا ہے۔"
میں سُن کر
خاموش رہا۔
لیکن رات بھر سوچتا رہا —
اگر وہ مر گیا ہے
تو…
کیا اس کا بھی
کوئی مقبرہ ہے؟
کوئی مزار —
جس پر
ہم پھول رکھ سکیں؟
یا فقط
یاد میں آنسو؟
No comments:
Post a Comment