Saturday, April 19, 2025

“خدا سے مکالمے

 


"اے خدا! کیا تیرا بھی کوئی خدا ہے؟"

اے خدا—
تو جو ازل سے ہے،
تو جو ابد تک رہے گا،
کیا تو کبھی ایک لمحے کو رُکا تھا؟
کیا کبھی تیرے دل میں
کوئی خیال ٹھہرا تھا؟
جیسے میرے دل میں
ایک سوال ہر رات پلتا ہے
کہ —
میں تُو کیوں نہیں؟
اور تُو، میں کیوں نہیں؟

تو کہتا ہے
سب کچھ میں نے بنایا
چھ دنوں میں —
مگر میں پوچھتا ہوں،
تخلیق کے وہ چھ دن
کہاں سے آئے تھے؟
کیا وقت بھی تیری مخلوق ہے؟
یا تُو بھی وقت کے قفس میں قید تھا
کبھی؟

آدم کو تو نے پیدا کیا
مٹی سے؟
یا خواب سے؟
یا اپنی کسی خامشی کے اندر
اک چیخ کو بند کیا
اور آدم کہہ دیا؟

میرے دل کی محرومی،
میرے جسم کی تھکن،
میرے سوالوں کا شور —
یہ سب کیا ہیں؟
کیا یہ بھی تیرے کسی فرمان کی پرچھائیاں ہیں؟
یا میں ہی وہ اندھی گلی ہوں
جسے تُو نے کبھی گزرگاہ سمجھا ہی نہیں؟

تو بدلتا کیوں ہے؟
کبھی قہر، کبھی کرم،
کبھی نور، کبھی نرگس کا رنگ؟
کبھی دھرتی میں چھپ جاتا ہے،
کبھی آسمان پہ چمکنے لگتا ہے—
کیا تُو بھی خود کو
پوری طرح جانتا نہیں؟

کیا یہ سب،
جو میں ہوں، جو تُو ہے،
اک تماشہ ہے؟
کیا میں تماشائی ہوں
یا تماشا خود ہوں؟

کبھی کبھی
جب رات بہت لمبی ہو جاتی ہے
اور آنکھوں میں نیند کی بجائے
فکر اترتی ہے —
میں سوچتا ہوں
کیا تیرا بھی کوئی خدا ہے؟
جو تجھے کبھی تنہا پا کر
تجھ سے پوچھے:
"کیوں بنایا تُو نے یہ سب کچھ؟"

اور تو —
جو سب کا خدا ہے —
خاموش ہو جائے،
بالکل میری طرح۔

No comments: