Monday, March 4, 2024

Sufism

 






























ایک قدیم بستی کی کہانی


ایک قدیم بستی کی کہانی 

بچپن میں میں اکسر مائیں شرارت کرتی وقت کہتی تھیں چپ کرو ورنہ باوو آ جائیگا . ہمیں یہ پتا نہی ہوتا تھا کا باوو کیا چیز  ہی مگرہم  سب بچی   اس کی خوف کی  ماری  سہم کر چپ ھوجاتی تھے.   یہی کہانی اس قدیم بستی کی باری میں یہا کہ   نہ صرف بچی کہتی ہیں مگر بڑی بوڑھی بھی. یہ بستی پرانی زمانی کی بھوت پریت یہ طلسم ھوشوربا کے مانند لگتی تھے. یہ بستی شہر کی بہت قدیم رہنی والوں  کی بستی ہی. ہر قدیم چیز نہ جانی کیوں  ہمیشہ بہت سی لو گوں  دیومالائی کیوں لگتی ہی. بہت سی لوگ جو اس بستی کی بڑی میں باتیں کرتی تھے تو میں ان سی یہ پوچھتا تھا کی آپ کبھی اس بستی میں گئے ہیں تو اکثر لوگ کہتی تھے " نہ بابا نہ " وہا تو موت کا باو و رتا ہی. 

مجھی اکثر اس بستی کا ذہن میں خیال اتی ہی پی ٹی وی کا ایک پرانا ڈرامہ یاد آ جاتا تھا. یہ ڈرامہ ایک باکسر کی زندگی کی باری میں تھا . اس ڈرامی میں نور محمد لاشاری ایک ایسی شخص کا کردار کرتا ہی جو نوجوانوں کو باکسنگ کی کھل کی طرف مایل کرتا ہی اور نوجوان اس کھل کو کھیلی ہوے نہ سرف خوش رہتی تھے بلکہ اس کی وجے سی وو مثبت باتوں کی طرف جاتی تھے. اس ڈرامی میں دکھایا گیا تھا ک ان سب باتوں ک باوجود کچھ نوجوان وقت اور حالت ک وجہ سی نشی ک طرف مایل ہوگئے تھے اور وو سماج سی کٹ ک رہ گئے تھے. 

اس بستی ک باری میں جو سنا تھا وو اس پرانی ڈرامائی سی کچھ مختلف نہیں تھا.میں بھی اس باو و ک ڈر ک ماری اس بستی میں جانی سی کتراتا تھا. مگر ایک دففہ کراچی سی حیدرآباد جاتی ہوئے ایک پرانی لال رنگ ک بس میں جب کراچی ک ٹول پلازہ ک پاس ایک کالی اور خاکی وردی والی   حوالدارنے  بھری بس میں سی سرف ایک شخص کو تلاشی دینی  کو کہا تو وو شخص بھڑک اٹھا .: میری تلاشی سرف اس لئے لےرہی ہو کہ میرا رنگ کالا ہی اور میری بال کھنگریلی ہیں"؟  تم سب کو اس بس میں سرف میں ہی ایک شخص مشکوک نظر آیا ہوں؟ اور تم سبھ شریف ہو؟ 
اڑی تم  لوگوں کو بات سمجہ میں کیوں نہیں اتا؟   اڑی ہم محنت مزدوری کرتا ہی . بس غریب ہی نہ اسکی وجہ سی تم سب ہم کو مارتی ہو .

اس بس میں اس اکیلی شخص کے احتجاج نی مجھ یہ سوچنی پہ مجبور کیا کہ میں اس قیم بستی جآ وو . آوارہ گردی کہ شوک  نی مجھ لطیف ڈو  رائی سی ملادیا . لطیف اسی بستی کہ رہنی والا ہی. میں اس سی پوچھا ک آخر اس بستی میں لوگ باو و کی بات کیوں کرتی ہیں؟ لطیف بولا " جب لوگوں کو نوکری  نہیں ملیگی ، اور وہ روز صبح کو اپنی فائل لے کی شہر کی دفتروں میں دھکی کھا کی بےمقصد  واپس گھر جائیں گیں محض اس وجہ سی کی انکا رنگ کالا ہی اور بال الگ طریقی کی ہیں تو تم خود بتاو اس بستی کی لوگوں کہ دماغ کیا سوچی گا. لطیف ایک سماجی کارکن ہیں اور سماجی بھلائی کی کاموں میں اپنی زندگی سرف کی ہوئے ہی . لطیف اوپر والی بات بتا تی ہوئی میری آنکھوں میں گھو ر  گھو ر کی دیکھہ رہا تھا ." روز صبح کو گھروالی آپ کو " بجا "  چھری پہ مار کی کہتی ہیں کل جو باہر سی ٹھیلا لگانی آیا تھا وو آج کروڑ پتی ہی اور تم اپنی ہی شہر میں بیروزگار ھو".

نبیل گبول چوک سی چیل چوک کہ سفر پیدل کرتی سمی ہر قدم  پہ ہر نسل ور قوم کی لوگ ملی. لطیف نے لوگوں سی ملواتی ہوے کہا کہ یہاں تو سب بستی ہیں. کچھی، میانوالی کی لوگ، سرائیکی، اردو، سندھی ، گجراتی ، بنگالی، پشتو، کشمیری، گلگتی. لطیف ایک کمپیوٹر اور انگریزی کی سنٹر پی لےگیا . وہا ن  پی اس کی کچھ دوست لیاری میں فوتبال ٹورنمنٹ کی باری میں پروگرام بنا رہی تھے. لطیف نے کہا کی "یہاں پی آج بھی ١٠٧ فوتبال کلب موجود ہیں . مگر پتا نہیں کیوں گوورنمنٹ نی یہاں کی کھلاڑیوں کو اس کھل سی دور کر دیا جس کی وجہ سی یہاں کی نوجوان پوری دنیا میں مشور ہوتی تھے . مگر اب یے صورت حال ہی کی یہاں کی لوگ اس بستی سی باہر جاتی ہوئے ڈرتی ہیں  کی کہیں کاٹا ہوا لاش شام کو گھر واپس نہ آ جائے. اکثر رکشی والی، سرکاری دفتروں میں کم کرنی والی اور طلبا یہاں سی باہر جاتی ہوئے سو بار سوچتی ہیں" .
ان حالت کی وجہ سی یہاں پر  بیروزگاری اور احساس محرومی میں اضافہ ہورہا ہی ."تم خود ہی بتاو کہ جب کراچی بہت سی لوگوں کی لیی کراچی  دبئی بنا ہوا ہی تو اس صورت حال میں یہاں کی قدیم ماہیگر کھانی کی باری میں پریشان ہیں " . لطیف بولا " فسادات اور گڑ بڑ تو سری میں ہوتی ہیں ، لیکن میڈیا نی جو یہاں کا تصور پیش کیا وو بہت غلط ہیں . یہاں پی گولی دو گلیوں میں چلتی ہی اور میڈیا یہ بتا تا ہے کا پوری لیاری میں شر پسند رہتی ہیں .یہاں کی آبادی سترہ لاکھ لوگوں پہ مشتمل .کھچ خدا کا خوف بی کرو یار"
لیاری کا چکر لگاتی ہوے یہ دیکھا گیا کی ساری بستی داخلی اور خارجی راستوں پی پولیس اور فرونتیئر کونستبلری کی دستی تعینات کیے گئی تھے. 
میں لطیف سی پوچھا یہا ن لوگ پڑھ لک  کر ترقی کیوں نہیں کرتی ؟ لطیف بولا " یہاں غربت بہت زیادہ ہی جس کی وجہ سی یہاں کی لوگ زیادہ پڑھ نہیں سکھتی. میں خود بارہ برس کی عمر سی والد کے  موت کی بات محنت مزدوری کر کی یہا ن پہچا ہوں". لطیف اگر مجھ یہ بات نہ بتاتا تو  شاید مجھی یے کبھی پتا نہیں لگتا کی وہ پڑھا لکھا نہیں ہی .

بستی کی گلیوں میں ہر دیوار بہت سی پوسٹر لگے ہوئی تھے. بہت سی پوسٹر سردار عذیر بلوچ کی تھے. ایک پوسٹر سندھی میں بھی تھا . جس پی لکھا ہوا تھا " مرجائے مگر سندھ نہیں دینگیں". یہ مقولہ تالپوروں کی فوج کی ایک مکرانی فوجی کی طرف منسوب کیا جاتا ہی جو انگریزوں سی لڑتی ہوئی شہید ہوگیا تھا .ایک کی بعد دوسری پوسٹر. سردار عبدل لرحمان بلوچ ، بابا لاڈلا-بہت سی پوسٹر کچھ شہیدوں کی باری میں تھے. ایک لمحی کی لئے میں ان پوسٹرس میں گم ہویا اور مجھی لگا  کی یہ ساری لوگ ان پوسٹرس میں سی نکل کر میری طرف دیک  رہی ہیں.یوں لگتا کسی شہیدوں کی کسی بستی میں آ گیا تھا. میں سوچ رہا تھا باوو تو نہیں ملا مگر بہت سی شہید  ملگئے .