Saturday, November 14, 2009

الفاظ کے صدّا

الفاظ کے صدّا

آج ایک ماہر لسانیات نے
انوکھی لغات انسانی تخلیق کے ہے
جہاں امکان نام کا کوئی مکان نہیں
جہاں راستی کہیں نہیں جاتی
جہاں سوچ کا گھر مغفل ہی ازل سے
جہاں الفاط کا کھیل وجود انسانی کے فکر کا انکاری ہے
جہاں سوچ کھوٹا سکا ہے -
میں سوچتا ہوں وجود انسانی اتنا چھوٹا کیوں ہے کہ اسس اتنی بڑی کائنات میں کہے سما ہے نہی پا تا ؟
کاش کوئی آسمان کو دیکھتا جو کسی آرام کے بغیر ازل سی زمین کو دیکھ رہا ہی
کاش کوئی سمندر کو دیکھتا جو روز محبت کا روز پی کے بھی زندہ ہے-

Tuesday, November 3, 2009

گناہ کا سراپ

گناہ کا سراپ

اس شہر کے بازار میں
سبھ گنہگار ہیں
کسی نی عبائے عصمت پہن کے رکھی ہے
کسی کے دستار علم گناہ کے رنگ سی لال ہے
کوئی مذہب کے تلوار لیے
جنت کا حقدار بننے کا سامان جمع کرنی کے عمل میں مصروف ہے-
کسی نے تہذیب کے تبدیلی کا ٹھیکہ لیا ہوا ہی
اور کوئے انسان کے سوئے ہوئے شعور کو اجاگر کرنی پ مصر ہے
کسی نے تصوف کا لبادہ َ اواُڑَہ کے رکہ ہی
اور کوئی گیان اوردھیانکے گیت گا رہا ہی
ہر ایک گاہ حیات پہ ایک شور ہجوم ہے
ہر ایک کے جنت برین اعلا و احسن ہے
یہ صاحب شریعت-زمانہ کا فتویٰ حق ہے
اور ہم تھے کا ہر ایک آئینہ وجود میں اپنا عکس گنہگار کا چہرہ لگا
اور زمانہ تھا کہ اپنا روز کا گناہ صبح کو کچہری کے ڈھیر پہ بھینک کہ اطمینان کے سانس لیتا تھا
مگر گناہ کے بدبو شہر کے ہر ایک کونی میں مشک حیات کے مانند جھپنی سی نہ جھپنے تھے
گناہ کے ننگی پن کو جھپانی کےلیے سبھینی اپنی آنکھوں پہ رنگین چشمے پہن رکھی تھے
ہونا اور نہ ہونا ایک دِلدے وقت میں دھنس کے رہ گیا تھا
تحقیق پرانی زمانی کے غا روں میں لکھی ہوئے پتھر کے دور کے کوئی گھمشدا تحریر ہی
جسی پوجتا تو سبھ کوئی ہی مگرھقیقت تحریر جاننا مضر صحت ہی
خیال زیست زنگ زدہ پرانی کشتی کے ملبی کے مانند
بس لوہاوجود پگھوانے کے بعد کسی اور وجود کے تشکیل مین صروف عمل میں ہے
بننا ، ہونا ، اور ہوجانا
بس ایک طلسم ہوشربا تھا-رقص جنوں تھا -بے سمت راستی -لا حاصل راہیں
گناہ کے انسانی حقوق کے ترجمان انجمنیں گناہ کے مظلومیت کے آہ زاری میں گریہ گر------
کوئی آسمان کے کھڑکی کھولو
کوئی زمین برد ہونی کے ر ا ہ بتاؤ -
ہونا کتی کے کاٹی ہوئے دم کے طرح -
ہونا -نا ہونا -ذات کے نفی -حیات سی جنگ
فلسفائے حیات کمری کے ا ونچی جگہ پ کپڑوں کے لبادے میں اوڑَہے ہوئے مقدس کتاب کے مند جیسی کوئی نہیں پڑھتا
چلو ابراہیم بن ادمم کے پہاڑی پ بنی ہوئے مسکن پ کجھ دیر ٹہریں-سانس کے اٹکی ڈھوری الجھائیں -
کسی چھوٹی سی بچی کے بات پ ہنس کے کائنات کے غم بھلا ییں
چلو چپ کے غار میں اکیلی پن کے دیئے جلائیں
چلو کسی شام پتھرکے بن کے چپ ہونی کے سدہ لگائیں
چلو ہم تم ہو جائیں
چلو تم ہم ہو جا ا و
چلو گم ہونی والی گلی میں چپ چاپ سی گم ہوجانے
جہاں سی واپسی کا کوئی راستہ نہ ہو ---

Monday, November 2, 2009

زیست کا بوج

زیست کا بوج
عبد الحق چانگ

نہ عشق کے راہ ملی نہ وحشتوں کے شام ملی
نہ وعید صبح ملی نہ نجات کے کوئی گزر گاہ ملی
ہم دربدری کے راستوں پی عبرت کے آثار کے طرح شہر کی چوک پی عبرت کدہ بن کے رہ گئے
ہم تھی لیکن ایسے کہ ہم نہ تھے لیکن سبھ کجھ اور تھا اور ہونی کہ ہر ایک امکان ہونی کو عیاں کرنی پی مصر تھا
ہم دھوبی کے کتی سی بھی ابتر
اجڑی سی قبرستان کے ٹوٹی ہوئی کتبی کے مانند
جو حیات اور موت کے داستان سناتی ہوئی خود مماتی بنگیا تھا-
نہ کوئی نوحہ خوان نہ کوئی ساز غم
وجود کے بدبو روح میں سے نکل کر ہستی کو امکان سے لا مکان میں گھسیٹ رہی تھی -
نہ فلسفی کا بیان -نہ ملی کا داستان-نہ ا تالیف کی شبدی بازیاں وجود کے تشنگی کے دوا تلاش کر سگین
ہم کوڑھ کے مریض کے متعرف تنہائی کےتنہا جنگل میں خود سے بھی خفا تھے
طبیبوں کے ترکش علاج قصاب کے طرح کاٹنی کے کاروبار میں مصروف عمل تھے
شہر کے ہر ایک دیوار پی "ممنوع دخول " کے کتبی عیان تھے
فلسفئ حیا ت کے سا تھ زنا بِجبر اھل مکتب کا نیا شوق تھا
اور ہم تھے ک سکرات کےپیالا زہر پینی کے احکام بجا لانی کو کہی گئے-
ہم تو پیاسی تھی اس زہر دوام کے موت تو بس ایک حیات تھا
مرنی سے کون مارتا ہے ؟
علم کے طبلچی جھوٹ کے نغاری بانگ دام بجانی لگے
یزید رہبری حسین کہلوانی لگا
کربلا کا کرب جیسی نہ تب بپا ہوا تھا نہ کہ ابّ بپا ہورہا ہے
درد کو دوام کاا نام دیا گیا
ضمیر آوارہ کتوں کے گروہ کے سردار کا نام ہے فرہنگ علم میں درج تھا-
بولنا بھی جرم تھا اور خاموشی بھی گناہ کے زمری میں آ تی تھے-
نہ کوئی گم ہونی کی رہ تھے نہ کوئی جلوے افروز ہونی کا جادو
چپ چاپ دور کسی تنہا ا جھاڑ بستی کو چلتی ہیں جہاں چپ کے سوا کوئی آواز نہ ہو -جہاں تہذیب نام کے کوئی بَد تہذیبی نو -
جہاں انسان نو ہو -جہاں تم نو -جہاں ہم نو ہوں-
جہاں خیال کےسوا -کوئی کور خیال نو ہوں-
جہاں زیست وجود کی بوجھ سی مبرا ہو - جہاں ذات کائنات کے کل کا جز ہو
جہاں ہونی اور نہ ہونی کے دیوار کے راستی
کن ف یکون کے رات کے ساتھ ملتی ہوں
جہاں ہستی اور مستی رات کے شام کے ساتھ طواف کری -