Monday, November 2, 2009

زیست کا بوج

زیست کا بوج
عبد الحق چانگ

نہ عشق کے راہ ملی نہ وحشتوں کے شام ملی
نہ وعید صبح ملی نہ نجات کے کوئی گزر گاہ ملی
ہم دربدری کے راستوں پی عبرت کے آثار کے طرح شہر کی چوک پی عبرت کدہ بن کے رہ گئے
ہم تھی لیکن ایسے کہ ہم نہ تھے لیکن سبھ کجھ اور تھا اور ہونی کہ ہر ایک امکان ہونی کو عیاں کرنی پی مصر تھا
ہم دھوبی کے کتی سی بھی ابتر
اجڑی سی قبرستان کے ٹوٹی ہوئی کتبی کے مانند
جو حیات اور موت کے داستان سناتی ہوئی خود مماتی بنگیا تھا-
نہ کوئی نوحہ خوان نہ کوئی ساز غم
وجود کے بدبو روح میں سے نکل کر ہستی کو امکان سے لا مکان میں گھسیٹ رہی تھی -
نہ فلسفی کا بیان -نہ ملی کا داستان-نہ ا تالیف کی شبدی بازیاں وجود کے تشنگی کے دوا تلاش کر سگین
ہم کوڑھ کے مریض کے متعرف تنہائی کےتنہا جنگل میں خود سے بھی خفا تھے
طبیبوں کے ترکش علاج قصاب کے طرح کاٹنی کے کاروبار میں مصروف عمل تھے
شہر کے ہر ایک دیوار پی "ممنوع دخول " کے کتبی عیان تھے
فلسفئ حیا ت کے سا تھ زنا بِجبر اھل مکتب کا نیا شوق تھا
اور ہم تھے ک سکرات کےپیالا زہر پینی کے احکام بجا لانی کو کہی گئے-
ہم تو پیاسی تھی اس زہر دوام کے موت تو بس ایک حیات تھا
مرنی سے کون مارتا ہے ؟
علم کے طبلچی جھوٹ کے نغاری بانگ دام بجانی لگے
یزید رہبری حسین کہلوانی لگا
کربلا کا کرب جیسی نہ تب بپا ہوا تھا نہ کہ ابّ بپا ہورہا ہے
درد کو دوام کاا نام دیا گیا
ضمیر آوارہ کتوں کے گروہ کے سردار کا نام ہے فرہنگ علم میں درج تھا-
بولنا بھی جرم تھا اور خاموشی بھی گناہ کے زمری میں آ تی تھے-
نہ کوئی گم ہونی کی رہ تھے نہ کوئی جلوے افروز ہونی کا جادو
چپ چاپ دور کسی تنہا ا جھاڑ بستی کو چلتی ہیں جہاں چپ کے سوا کوئی آواز نہ ہو -جہاں تہذیب نام کے کوئی بَد تہذیبی نو -
جہاں انسان نو ہو -جہاں تم نو -جہاں ہم نو ہوں-
جہاں خیال کےسوا -کوئی کور خیال نو ہوں-
جہاں زیست وجود کی بوجھ سی مبرا ہو - جہاں ذات کائنات کے کل کا جز ہو
جہاں ہونی اور نہ ہونی کے دیوار کے راستی
کن ف یکون کے رات کے ساتھ ملتی ہوں
جہاں ہستی اور مستی رات کے شام کے ساتھ طواف کری -

No comments: