گناہ کا سراپ
اس شہر کے بازار میں
سبھی گناہگار ہیں —
کسی نے عبائے عصمت پہن رکھی ہے،
کسی کے دستارِ علم پر گناہ کا سرخ رنگ چھایا ہے۔
کوئی مذہب کی تلوار تھامے
جنت کا حقدار بننے کا سامان جمع کرنے میں مصروف ہے۔
کسی نے تہذیب کی تبدیلی کا ٹھیکہ لے رکھا ہے
اور کوئے انسان میں سوئے شعور کو جگانے پر مصر ہے۔
کسی نے تصوف کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے،
اور کوئی گیان و دھیان کے گیت گا رہا ہے۔
ہر گامِ حیات پر شور و ہجوم ہے۔
ہر ایک کی جنت، برین، اعلیٰ و احسن ہے۔
یہ صاحبِ شریعت — زمانے کا فتویٰ اُن کے حق میں ہے،
اور ہم؟
ہمارے ہر آئینہِ وجود میں
اپنا ہی عکس گناہگار کے چہرے سا دکھائی دیتا ہے۔
زمانہ — ہر روز کا گناہ
صبح کچہری کے ڈھیر پر پھینک کر
اطمینان کا سانس لیتا ہے۔
مگر گناہ کی بدبو
شہر کے ہر کونے میں
مشکِ حیات کی مانند
چھپنے سے انکار کرتی ہے۔
گناہ کے ننگے پن کو چھپانے کے لیے
سبھی نے آنکھوں پر رنگین چشمے چڑھا رکھے ہیں۔
"ہونا" اور "نہ ہونا"
ایک دلدلی وقت میں دھنسا پڑا ہے۔
تحقیق، پرانے زمانے کے غاروں میں
لکھی ہوئی
پتھر کے دور کی کوئی گمشدہ تحریر بن چکی ہے،
جسے سب پوجتے تو ہیں
مگر اُس کی حقیقت جاننا —
مضرِ صحت کہلاتا ہے۔
خیالِ زیست،
زنگ آلود پرانی کشتی کے ملبے جیسا ہے۔
بس لوہأ وجود،
پگھلنے کے بعد کسی اور وجود کی تشکیل میں
مصروفِ عمل ہے۔
بننا، ہونا، اور ہو جانا —
بس ایک طلسمِ ہوش رُبا ہے۔
رقصِ جنوں ہے —
بے سمت راستے، لاحاصل راہیں۔
گناہ کے انسانی حقوق کے ترجمان،
انجمنیں
گناہ کی مظلومیت پر آہ و زاری میں
گریہ کناں ہیں۔
کوئی آسمان کی کھڑکی کھولو!
کوئی زمین بَرَد ہونے کی راہ دکھاؤ!
"ہونا"
کٹے ہوئے کُتّے کی دُم سا ہے —
ہونا، نہ ہونا —
ذات کی نفی، حیات سے جنگ۔
فلسفۂ حیات،
کمرے کی اونچی جگہ
کپڑوں کے لبادے میں لپٹی
ایک مقدس کتاب کی مانند ہے،
جسے اب کوئی نہیں پڑھتا۔
چلو، ابراہیم بن ادہم کے پہاڑی مسکن پر کچھ دیر ٹھہریں —
سانس کی اٹکی ڈوریاں سلجھائیں۔
کسی چھوٹی سی بچی کی بات پر ہنسیں،
کائنات کے غم بھلا دیں۔
چلو، چپ کے غار میں
اکیلا پن کے دیے جلائیں۔
چلو، کسی شام
پتھر کے بن میں چُپ ہونے کی صدا لگائیں۔
چلو —
ہم، تم ہو جائیں۔
چلو —
تم، ہم ہو جاؤ۔
چلو،
گم ہونے والی گلی میں
چپ چاپ گم ہو جائیں —
جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہ ہو۔
No comments:
Post a Comment