Saturday, April 19, 2025

The Burden of Being

 The Burden of Being

By Abdul Haque Chang

No path of love unveiled, no dusk of madness came,
No morning’s covenant whispered, no gateway led to grace—
We wandered the roads of exile like omens carved in stone,
Standing in the town square, turned to ruins of reflection.

We were—yet not quite.
What was, was all else,
And fate—fierce and urgent—unmasked every possibility,
Striving to declare even what dared not be.

Worse than a washerman’s tattered rag,
We were like broken tombstones
In a forgotten graveyard—
Half-speaking tales of life and death,
Becoming death itself in silent echo.

No dirge-singer sang, no sorrowful lute played;
The stench of being rose from soul to skin,
Dragging existence from realm of possibility
To the silence beyond form.

No philosopher’s prose, no myths of nation,
No scholarly sleight of hand
Could quench this thirst of the self.
We, like lepers unknown,
Wandered the jungle of solitude,
Angered even at our own shadow.

Healers became butchers—
Their arrows of cure mere cleavers of commerce.
On every wall in every city,
“Entry Forbidden” was inscribed—
And none dared ask, "To whom?"

The scholars of life
Took to ravishing wisdom by force—
And we—drunken with death—
Were ordered to sip the chalice of poison
As if it were divine command.

Yet we thirsted for that enduring venom,
For death was but a form of life.
Who kills by dying?

The drummers of knowledge
Struck false gongs in triumph,
And Yazid was crowned
While calling himself Husayn.

No battlefield of Karbala like that
Had ever been raised—nor is now.
Suffering was given the name of eternity,
And consciousness—the rogue leader
Of a pack of stray dogs—
Was noted thus in the lexicon of knowledge.

To speak was a crime;
To be silent—a sin.

There was no path to what was lost,
No miracle lighting what could come.
Quietly we journeyed
Toward a barren and forsaken village
Where silence was the only sound,
Where the name of civilization
Was a mask for its ruin.

A place where humanity could begin anew—
Where you were new,
Where I was new,
Where we became what we were meant to be.

Where thought alone ruled,
And thoughtless thought no longer reigned.
Where existence was unburdened of its weight—
Where the self became
A sacred thread in the cloth of cosmos.

Where the walls
Between being and non-being
Leaned into the night of Kun fa Yakoon.
Where being and intoxication
Circled the twilight of eternity—
In reverence,
In stillness,
In the hush of divine mystery.

 زیست کا بوج

عبد الحق چانگ

نہ عشق کے راہ ملی نہ وحشتوں کے شام ملی
نہ وعید صبح ملی نہ نجات کے کوئی گزر گاہ ملی
ہم دربدری کے راستوں پی عبرت کے آثار کے طرح شہر کی چوک پی عبرت کدہ بن کے رہ گئے
ہم تھی لیکن ایسے کہ ہم نہ تھے لیکن سبھ کجھ اور تھا اور ہونی کہ ہر ایک امکان ہونی کو عیاں کرنی پی مصر تھا
ہم دھوبی کے کتی سی بھی ابتر
اجڑی سی قبرستان کے ٹوٹی ہوئی کتبی کے مانند
جو حیات اور موت کے داستان سناتی ہوئی خود مماتی بنگیا تھا-
نہ کوئی نوحہ خوان نہ کوئی ساز غم
وجود کے بدبو روح میں سے نکل کر ہستی کو امکان سے لا مکان میں گھسیٹ رہی تھی -
نہ فلسفی کا بیان -نہ ملی کا داستان-نہ ا تالیف کی شبدی بازیاں وجود کے تشنگی کے دوا تلاش کر سگین
ہم کوڑھ کے مریض کے متعرف تنہائی کےتنہا جنگل میں خود سے بھی خفا تھے
طبیبوں کے ترکش علاج قصاب کے طرح کاٹنی کے کاروبار میں مصروف عمل تھے
شہر کے ہر ایک دیوار پی "ممنوع دخول " کے کتبی عیان تھے
فلسفئ حیا ت کے سا تھ زنا بِجبر اھل مکتب کا نیا شوق تھا
اور ہم تھے ک سکرات کےپیالا زہر پینی کے احکام بجا لانی کو کہی گئے-
ہم تو پیاسی تھی اس زہر دوام کے موت تو بس ایک حیات تھا
مرنی سے کون مارتا ہے ؟
علم کے طبلچی جھوٹ کے نغاری بانگ دام بجانی لگے
یزید رہبری حسین کہلوانی لگا
کربلا کا کرب جیسی نہ تب بپا ہوا تھا نہ کہ ابّ بپا ہورہا ہے
درد کو دوام کاا نام دیا گیا
ضمیر آوارہ کتوں کے گروہ کے سردار کا نام ہے فرہنگ علم میں درج تھا-
بولنا بھی جرم تھا اور خاموشی بھی گناہ کے زمری میں آ تی تھے-
نہ کوئی گم ہونی کی رہ تھے نہ کوئی جلوے افروز ہونی کا جادو
چپ چاپ دور کسی تنہا ا جھاڑ بستی کو چلتی ہیں جہاں چپ کے سوا کوئی آواز نہ ہو -جہاں تہذیب نام کے کوئی بَد تہذیبی نو -
جہاں انسان نو ہو -جہاں تم نو -جہاں ہم نو ہوں-
جہاں خیال کےسوا -کوئی کور خیال نو ہوں-
جہاں زیست وجود کی بوجھ سی مبرا ہو - جہاں ذات کائنات کے کل کا جز ہو
جہاں ہونی اور نہ ہونی کے دیوار کے راستی
کن ف یکون کے رات کے ساتھ ملتی ہوں
جہاں ہستی اور مستی رات کے شام کے ساتھ طواف کری -

 گناہ کا سراپ


اس شہر کے بازار میں
سبھی گناہگار ہیں —
کسی نے عبائے عصمت پہن رکھی ہے،
کسی کے دستارِ علم پر گناہ کا سرخ رنگ چھایا ہے۔
کوئی مذہب کی تلوار تھامے
جنت کا حقدار بننے کا سامان جمع کرنے میں مصروف ہے۔
کسی نے تہذیب کی تبدیلی کا ٹھیکہ لے رکھا ہے
اور کوئے انسان میں سوئے شعور کو جگانے پر مصر ہے۔

کسی نے تصوف کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے،
اور کوئی گیان و دھیان کے گیت گا رہا ہے۔
ہر گامِ حیات پر شور و ہجوم ہے۔
ہر ایک کی جنت، برین، اعلیٰ و احسن ہے۔

یہ صاحبِ شریعت — زمانے کا فتویٰ اُن کے حق میں ہے،
اور ہم؟
ہمارے ہر آئینہِ وجود میں
اپنا ہی عکس گناہگار کے چہرے سا دکھائی دیتا ہے۔

زمانہ — ہر روز کا گناہ
صبح کچہری کے ڈھیر پر پھینک کر
اطمینان کا سانس لیتا ہے۔

مگر گناہ کی بدبو
شہر کے ہر کونے میں
مشکِ حیات کی مانند
چھپنے سے انکار کرتی ہے۔

گناہ کے ننگے پن کو چھپانے کے لیے
سبھی نے آنکھوں پر رنگین چشمے چڑھا رکھے ہیں۔

"ہونا" اور "نہ ہونا"
ایک دلدلی وقت میں دھنسا پڑا ہے۔

تحقیق، پرانے زمانے کے غاروں میں
لکھی ہوئی
پتھر کے دور کی کوئی گمشدہ تحریر بن چکی ہے،
جسے سب پوجتے تو ہیں
مگر اُس کی حقیقت جاننا —
مضرِ صحت کہلاتا ہے۔

خیالِ زیست،
زنگ آلود پرانی کشتی کے ملبے جیسا ہے۔
بس لوہأ وجود،
پگھلنے کے بعد کسی اور وجود کی تشکیل میں
مصروفِ عمل ہے۔

بننا، ہونا، اور ہو جانا —
بس ایک طلسمِ ہوش رُبا ہے۔
رقصِ جنوں ہے —
بے سمت راستے، لاحاصل راہیں۔

گناہ کے انسانی حقوق کے ترجمان،
انجمنیں
گناہ کی مظلومیت پر آہ و زاری میں
گریہ کناں ہیں۔

کوئی آسمان کی کھڑکی کھولو!
کوئی زمین بَرَد ہونے کی راہ دکھاؤ!

"ہونا"
کٹے ہوئے کُتّے کی دُم سا ہے —

ہونا، نہ ہونا —
ذات کی نفی، حیات سے جنگ۔

فلسفۂ حیات،
کمرے کی اونچی جگہ
کپڑوں کے لبادے میں لپٹی
ایک مقدس کتاب کی مانند ہے،
جسے اب کوئی نہیں پڑھتا۔

چلو، ابراہیم بن ادہم کے پہاڑی مسکن پر کچھ دیر ٹھہریں —
سانس کی اٹکی ڈوریاں سلجھائیں۔
کسی چھوٹی سی بچی کی بات پر ہنسیں،
کائنات کے غم بھلا دیں۔

چلو، چپ کے غار میں
اکیلا پن کے دیے جلائیں۔
چلو، کسی شام
پتھر کے بن میں چُپ ہونے کی صدا لگائیں۔

چلو —
ہم، تم ہو جائیں۔
چلو —
تم، ہم ہو جاؤ۔

چلو،
گم ہونے والی گلی میں
چپ چاپ گم ہو جائیں —
جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہ ہو۔

“خدا سے مکالمے

 


"اے خدا! کیا تیرا بھی کوئی خدا ہے؟"

اے خدا—
تو جو ازل سے ہے،
تو جو ابد تک رہے گا،
کیا تو کبھی ایک لمحے کو رُکا تھا؟
کیا کبھی تیرے دل میں
کوئی خیال ٹھہرا تھا؟
جیسے میرے دل میں
ایک سوال ہر رات پلتا ہے
کہ —
میں تُو کیوں نہیں؟
اور تُو، میں کیوں نہیں؟

تو کہتا ہے
سب کچھ میں نے بنایا
چھ دنوں میں —
مگر میں پوچھتا ہوں،
تخلیق کے وہ چھ دن
کہاں سے آئے تھے؟
کیا وقت بھی تیری مخلوق ہے؟
یا تُو بھی وقت کے قفس میں قید تھا
کبھی؟

آدم کو تو نے پیدا کیا
مٹی سے؟
یا خواب سے؟
یا اپنی کسی خامشی کے اندر
اک چیخ کو بند کیا
اور آدم کہہ دیا؟

میرے دل کی محرومی،
میرے جسم کی تھکن،
میرے سوالوں کا شور —
یہ سب کیا ہیں؟
کیا یہ بھی تیرے کسی فرمان کی پرچھائیاں ہیں؟
یا میں ہی وہ اندھی گلی ہوں
جسے تُو نے کبھی گزرگاہ سمجھا ہی نہیں؟

تو بدلتا کیوں ہے؟
کبھی قہر، کبھی کرم،
کبھی نور، کبھی نرگس کا رنگ؟
کبھی دھرتی میں چھپ جاتا ہے،
کبھی آسمان پہ چمکنے لگتا ہے—
کیا تُو بھی خود کو
پوری طرح جانتا نہیں؟

کیا یہ سب،
جو میں ہوں، جو تُو ہے،
اک تماشہ ہے؟
کیا میں تماشائی ہوں
یا تماشا خود ہوں؟

کبھی کبھی
جب رات بہت لمبی ہو جاتی ہے
اور آنکھوں میں نیند کی بجائے
فکر اترتی ہے —
میں سوچتا ہوں
کیا تیرا بھی کوئی خدا ہے؟
جو تجھے کبھی تنہا پا کر
تجھ سے پوچھے:
"کیوں بنایا تُو نے یہ سب کچھ؟"

اور تو —
جو سب کا خدا ہے —
خاموش ہو جائے،
بالکل میری طرح۔

Masiha is no more among us

 




مسیحا مر گیا ہے

اور عیسیٰ بھی —

بغیر صلیب کے،

بغیر معجزے کے،

خامشی میں

دفن ہو گیا۔


میں نے خواب دیکھنا

چھوڑ دیے ہیں —

خواب…؟

جن میں روشنی ہوتی تھی،

یا کبھی کوئی در کھلتا تھا —

اب وہ خواب

بند کمروں میں

دم گھٹ کر مر چکے ہیں۔


میں انسان ہوں —

یا وہ مٹی

جو بارش کو ترستی ہے؟

شاید…

انسان بھی مر گیا ہے۔


نفس کی سرکس میں

جہاں خواہشیں جانوروں کی طرح ناچتی ہیں،

میں نے کئی بار

اپنے ضمیر کو روتے دیکھا —

پھر ایک دن

وہ چپ ہو گیا…

اور پھر

کبھی بولا نہیں۔


فرشتے —

جو کبھی خوابوں میں آتے تھے،

اب آسمانوں پر کھو گئے ہیں،

یا شاید…

ہم نے ان کے دروازے

خود بند کر دیے۔


شہر —

ڈرا ہوا،

سویا ہوا،

بھیڑ میں لپٹا ہوا —

کسی سنسان قبرستان کی مانند

دھڑک رہا ہے۔


کوئی نہیں جانتا

کہ وہ کون تھا

جس نے چراغ جلائے تھے۔

اب وہ خود

اندھیروں میں کھو گیا ہے۔


اور کل —

ایک کفر نے کہا:

"خُدا مر گیا ہے۔"

میں سُن کر

خاموش رہا۔


لیکن رات بھر سوچتا رہا —

اگر وہ مر گیا ہے

تو…

کیا اس کا بھی

کوئی مقبرہ ہے؟


کوئی مزار —

جس پر

ہم پھول رکھ سکیں؟

یا فقط

یاد میں آنسو؟