Monday, March 4, 2024

Sufism

 






























ایک قدیم بستی کی کہانی

ایک قدیم بستی کی کہانی

 

بچپن کی وہ شامیں، جب سورج کی زردی دیواروں پہ رینگتی تھی، اور گلی کے نکڑ پر بیٹھیں مائیں شرارت سے باز آ جانے کے لیے بچوں کو ڈانٹتیں:
"چپ ہو جاؤ، ورنہ باوو آ جائے گا!"

ہمیں کیا خبر تھی کہ "باوو" کون ہے؟ نہ کوئی چہرہ، نہ کوئی کہانی۔ مگر اس ان کہی ہستی کا نام ہی کافی ہوتا تھا ہمیں خاموش کر دینے کے لیے۔

اسی "باوو" کی سرگوشی ایک پرانی بستی میں اب تک گونجتی ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ اب یہ صرف بچے نہیں، بلکہ بوڑھیاں بھی دھیرے سے کہتی ہیں، "یہاں مت جاؤ... وہاں باوو رہتا ہے۔"

یہ بستی... جیسے وقت کے پتھر میں قید کوئی خواب۔ ایک ایسا خواب جس میں روشنی نہیں، فقط سنّاٹا ہے۔ یہ شہر کے بیچ واقع وہ پرانی بستی ہے، جہاں کے مکین اب بھی اپنی کہانیوں میں دیومالائی دھواں سموئے بیٹھے ہیں۔

میں نے جب بھی کسی بزرگ سے پوچھا،
"کیا آپ کبھی اس بستی میں گئے ہیں؟"
تو اکثر سہم کر کہتے،
"نہ بابا، وہاں تو موت کا باوو رِہتا ہے۔"

 

اس بستی کی یاد نے ایک روز مجھے پی ٹی وی کے ایک پرانے ڈرامے کی طرف کھینچ لیا۔
نور محمد لاشاری کا کردار... باکسنگ کوچ، جو نوجوانوں کو کھیل کے ذریعے زندگی کی طرف لاتا ہے۔ لیکن وہی نوجوان... محرومی، نسل پرستی اور غربت کی وجہ سے واپس اندھیروں میں ڈھل جاتے ہیں۔

کیا وہ ڈرامہ ہی حقیقت نہ تھا؟

 

کراچی سے حیدرآباد جاتے ہوئے، ایک پرانی سرخ بس میں، جب ٹول پلازہ پر ایک حوالدار نے پورے مجمع سے صرف ایک سانولے نوجوان کو تلاشی کے لیے کھڑا کیا، تو وہ چیخ اٹھا:
"میری تلاشی کیوں؟ کیا رنگ کالا ہونا جرم ہے؟ کیا میرے بال مجرم ہیں؟"

بس میں ایک سناٹا چھا گیا۔ اس کی آواز میں درد تھا، جس نے مجھے اس بستی کی طرف کھینچ لیا
وہی بستی، جسے سب باوو کی سرزمین کہتے ہیں۔

 

وہاں میری ملاقات ہوئی لطیف ڈورائی سے۔

ایک خاموش مزاحمت کی تصویر۔
سماجی کارکن، بستی کا بیٹا، وہ خود کہتا ہے:
"جب تمہارا رنگ کالا ہو، تمہاری زبان الگ ہو، تمہارے بال مٹیالے ہوں... اور تم روز فائل لے کر نوکری کے لیے دھکے کھا کر واپس لوٹو — تو باوو تمہارے اندر بس جاتا ہے۔"

لطیف کی آنکھوں میں ایک زمانہ ٹھہرا ہوا تھا۔
"ہر صبح میری بیوی طعنہ دیتی ہے، 'کل جو باہر ٹھیلا لگانے آیا تھا وہ کروڑ پتی بن گیا... اور تم ابھی تک بیکار!'"

 

نبیل گبول چوک سے چیل چوک تک پیدل چلتے ہوئے ہر قوم، ہر زبان، ہر محرومی سے سامنا ہوا
کچھی، سندھی، سرائیکی، گجراتی، بنگالی، پشتون، کشمیری، گلگتی — سب کے چہرے ایک ہی درد میں ڈھلے ہوئے۔

لطیف نے ایک کمپیوٹر سینٹر میں لے جا کر فخر سے بتایا،
"یہاں
۱۰۷ فٹبال کلب ہیں، مگر حکومت نے کھیل چھین لیا، امید چھین لی... اب یہاں صرف ایک ہی کھیل رہ گیا ہے — بقاء کا کھیل۔"

 

لیاری کے داخلی و خارجی راستوں پر پولیس اور ایف سی کے دستے،
گلیوں میں دیواروں پر شہیدوں کے پوسٹر،
سردار عبد الرحمن بلوچ، بابا لاڈلا،
اور ایک پوسٹر پر لکھا تھا:
"مر جائیں گے، مگر سندھ نہیں دیں گے!"

یہ پوسٹر نہیں تھے — یہ آنکھیں تھیں، جو مجھ سے سوال کر رہی تھیں:
"تم ہمیں صرف خبروں میں دیکھتے ہو،
کبھی ہمیں سمجھا ہے؟"

 

میں نے پوچھا،
"یہاں کے نوجوان ترقی کیوں نہیں کرتے؟"

لطیف نے دھیرے سے کہا،
"کیوں کہ غربت کتاب چھین لیتی ہے...
اور عزت کے نام پر مار دیتی ہے۔
میں بارہ سال کا تھا جب باپ مر گیا،
اور میں مزدور بن گیا۔"

اگر وہ خود نہ بتاتا،
تو کبھی گمان نہ ہوتا
کہ یہ شخص کتاب کا لفظ نہیں،
زندگی کا ہر ورق پڑھ چکا ہے۔

 

وہ بستی، جس کے لیے کہا جاتا تھا "وہاں باوو رہتا ہے" —
اب میری آنکھوں میں بسا ہوا ہے۔

وہ باوو کوئی جن، بھوت یا سایہ نہیں
وہ وہ خوف ہے
جو ناانصافی، محرومی، اور تعصب کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔

وہ باوو ہم سب کے اندر پلتا ہے۔
کبھی تلاشی کے نام پر،
کبھی رنگ کے سبب،
کبھی شناخت کے عنوان سے۔

 

یہ بستی... لیاری کی ایک گلی نہیں،
انسانیت کا آئینہ ہے۔

جہاں ہر شہید کے چہرے پر سوال لکھا ہے
"کیا ہم فقط خبر تھے؟
یا تم کبھی ہمیں بھی سمجھو گے؟"

 

خاتمہ:

اگر باوو واقعی موجود ہے
تو شاید وہ
ہم سب کے اندر کی آواز ہے،
جسے ہم نے ڈر کر دبا دیا ہے۔

یا شاید...
ہم سب ہی باوو بن چکے ہیں۔