Wednesday, November 23, 2016

گمان -Guman

گاہے گاہے

کبھی وہ عکس کہ جیسے سراپا ہو
کبھی ہم، کبھی تم — وہی نقش تمنا ہو

کبھی دشت میں ہم، جوں کہ مسافر ہوں
ہر سایہ پہ گمان، کہ یہیں منزل ہو

مگر،
منزل؟
وہ تو اک فریبِ نظر ہے —
کبھی بھی ہم کو ملی ہی نہیں

ہاں، محبت…
محبت بھی باراں کی صورت برستی ہے
کبھی خامشی میں، کبھی شور کی مستی ہے

کون سمجھے؟
سوکھے شجر کا دکھ
پیاسی نظر، لبوں کی کسک —
کون جانے یہ ہجر کی حقیقت کیا ہے؟

عشق؟
عشق تو چور سا آتا ہے
دل چرا کر، خوابوں میں بس جاتا ہے

اور
آنکھ لگے —
تو جیسے خواب نگر کا راستہ ہو
کہ جہاں
ہر لمحہ غفلت ہو تو کفر سا لگے

عشق —
عشق وہی رازِ الٰہی کی لام، میم، نون میں چھپا ہو
جو ہر بار
ہمیں
کسی اور دیس کی رہ دکھا دے

درد؟
درد تو دوست ہے
ازل سے
ہمقدم، ہمراز
خدا کی طرح خاموش، مگر ساتھ ساتھ