Friday, December 17, 2010

اس برس سردی کا موسم کچھ زیادہ تنہا ے کا احساس دلا رہا ہی. میں یہ سمجنی سی قاصر ہوں کے لوگوں کے ہجوم میں شجر ممنوع کیوں بنا ہوا ہوں. عقل ور ابہام کے سرحد کوۓ بازگش لگتی ہی. وقت تھم سا گیا ہی. الفاظ اپنی حرمت کھو گئی ہیں. میں جس خدا کے انکاری ہوں وہ میرا پیچھا نہیں چھوڑتا? انتظار زمان مسلسل کے مسل تبدیل نہیں ہوتا. صبر کے درخت کے بیج پیوند ہے نہیں ہو رہی . خواب میںدیکھا بہت اوپر ایک سفید چھت تھے -اس کو چیر کے دوسری طرف پنہچا تھا -وو عجیب عکس تھے
-سفید بادلوں کے طرح-وو کیا تھا ؟ مجھی لگتا ہی پاگل پن اور بیخودی کا راستہ ایک ہے سمت کو جاتا ہی- -اس دن خواب کو میں قبرستان میں دفن کرنی گیا تھا مگر جب منزل پی پھچا تو پتا لگا اب خوابوں کو انسان کو اپنی اندر ہی دفنانا پڑےگا . میں کوہ تور کے تلاش میں کہان آ گیا ہوں- خضر تو کہان ہی ؟ میری وجود کو تو ذات کے قید سی آزاد کیوں نہیں کرتا ؟
میں کوہ طور سی بہت اگی جانا چاہتا ہوں -مجھی آئینہ چاہئے جو سب چہروں کا چہرہ دکھائی -


1 comment:

ghulam said...

Dear Haq,
I am inspired by your creativity. I like these line very much: I am inspired by your flight of imagination.
1.
میں جس خدا کے انکاری ہوں وہ میرا پیچھا نہیں چھوڑتا?
.2
انتظار زمان مسلسل کے مسل تبدیل نہیں ہوتا. .
3.
صبر کے درخت کے بیج پیوند ہے نہیں ہو رہی
4.
میری وجود کو تو ذات کے قید سی آزاد کیوں نہیں کرتا ؟

5.
-مجھی آئینہ چاہئے جو سب چہروں کا چہرہ .دکھائی
Pirzado Azhar Ayaz, France