فسانہ: سفید چھت کے نیچے
سردی کچھ زیادہ ہی لمبی ہو گئی تھی اس بار۔ کمبل کے نیچے جسم ٹھٹھرتا رہا، لیکن اندر کا موسم کچھ اور تھا — وہاں برف نہیں تھی، صرف سناٹا تھا۔ ایسا سناٹا جو چیختا نہیں، بس دھیرے دھیرے ہڈیوں میں اترتا ہے، جیسے کوئی خاموش طعنہ۔
میں ہجوم میں تھا... ہر روز۔ دفتر، بازار، سگریٹ کے دھوئیں میں لپٹے چہروں کے بیچ، ہنستے ہوئے آدمیوں کے بیچ، جو شاید اندر ہی اندر رو رہے تھے۔ اور میں... میں تو شجرِ ممنوع تھا۔ ہر کوئی دیکھتا تھا، مگر کوئی چھوتا نہیں تھا۔
سمجھ نہیں آتا تھا کہ میں کہاں سے آیا ہوں... یا جا کہاں رہا ہوں۔ وقت، جیسے ٹھہر سا گیا ہو — یا شاید میں ہی رک گیا ہوں، اور باقی سب چل رہے ہیں۔
میں نے جس خدا سے منہ موڑا تھا، وہ میرے تعاقب میں تھا۔ ہر قدم، ہر خیال، ہر خواب میں۔ جیسے کوئی سایہ، جو کمرے کی دیوار پہ نہیں، دل کے اندر پڑا ہو۔
ایک خواب دیکھا... یا شاید وہ خواب نہیں تھا، کچھ اور تھا۔ ایک سفید چھت تھی — روشن، سرد، بےجان۔ میں نے اس کو چیرنے کی کوشش کی، جیسے کوئی بچہ ماں کے پیٹ کو نوچ کے باہر نکلنا چاہتا ہو۔ اس چھت کے پار کچھ عکس تھے، بادل جیسے... نرم، سفید، مگر ساکت۔ جیسے وقت وہیں مر گیا ہو۔
میں پاگل نہیں ہوں... یا شاید ہوں۔ پاگل پن اور بیخودی میں شاید فرق نہیں رہا۔ اُس دن خواب کو دفن کرنے گیا تھا۔ ہاں، قبرستان لے گیا تھا اسے، جیسے کوئی محبوبہ کی لاش لے کر جاتا ہے — مگر جب پہنچا تو پتا چلا، خوابوں کی قبریں اب باہر نہیں، اندر بنتی ہیں۔
میں کوہِ طور کی تلاش میں نکلا تھا۔ خضر؟ وہ بھی شاید کسی گناہ کی سزا میں بھٹک رہا ہے۔ میں صدیوں سے اسی سوال میں قید ہوں:
"میں ہوں یا کوئی اور؟"
میرے وجود پر ذات کی بیڑیاں لگی ہیں۔ جیسے ہر سانس، کسی اور کے نام وقف ہو۔
آج میں آئینہ مانگتا ہوں — سچا، بےرحم، ننگا آئینہ۔ جو ہر چہرے کا چہرہ دکھا سکے، نقابوں کے پیچھے چھپی اصل شکل...
میری بھی۔
تمہاری بھی۔
1 comment:
Dear Haq,
I am inspired by your creativity. I like these line very much: I am inspired by your flight of imagination.
1.
میں جس خدا کے انکاری ہوں وہ میرا پیچھا نہیں چھوڑتا?
.2
انتظار زمان مسلسل کے مسل تبدیل نہیں ہوتا. .
3.
صبر کے درخت کے بیج پیوند ہے نہیں ہو رہی
4.
میری وجود کو تو ذات کے قید سی آزاد کیوں نہیں کرتا ؟
5.
-مجھی آئینہ چاہئے جو سب چہروں کا چہرہ .دکھائی
Pirzado Azhar Ayaz, France
Post a Comment