زیست کا بوج
عبد الحق چانگ
نہ عشق کے راہ ملی نہ وحشتوں کے شام ملی
نہ وعید صبح ملی نہ نجات کے کوئی گزر گاہ ملی
ہم دربدری کے راستوں پی عبرت کے آثار کے طرح شہر کی چوک پی عبرت کدہ بن کے رہ گئے
ہم تھی لیکن ایسے کہ ہم نہ تھے لیکن سبھ کجھ اور تھا اور ہونی کہ ہر ایک امکان ہونی کو عیاں کرنی پی مصر تھا
ہم دھوبی کے کتی سی بھی ابتر
اجڑی سی قبرستان کے ٹوٹی ہوئی کتبی کے مانند
جو حیات اور موت کے داستان سناتی ہوئی خود مماتی بنگیا تھا-
نہ کوئی نوحہ خوان نہ کوئی ساز غم
وجود کے بدبو روح میں سے نکل کر ہستی کو امکان سے لا مکان میں گھسیٹ رہی تھی -
نہ فلسفی کا بیان -نہ ملی کا داستان-نہ ا تالیف کی شبدی بازیاں وجود کے تشنگی کے دوا تلاش کر سگین
ہم کوڑھ کے مریض کے متعرف تنہائی کےتنہا جنگل میں خود سے بھی خفا تھے
طبیبوں کے ترکش علاج قصاب کے طرح کاٹنی کے کاروبار میں مصروف عمل تھے
شہر کے ہر ایک دیوار پی "ممنوع دخول " کے کتبی عیان تھے
فلسفئ حیا ت کے سا تھ زنا بِجبر اھل مکتب کا نیا شوق تھا
اور ہم تھے ک سکرات کےپیالا زہر پینی کے احکام بجا لانی کو کہی گئے-
ہم تو پیاسی تھی اس زہر دوام کے موت تو بس ایک حیات تھا
مرنی سے کون مارتا ہے ؟
علم کے طبلچی جھوٹ کے نغاری بانگ دام بجانی لگے
یزید رہبری حسین کہلوانی لگا
کربلا کا کرب جیسی نہ تب بپا ہوا تھا نہ کہ ابّ بپا ہورہا ہے
درد کو دوام کاا نام دیا گیا
ضمیر آوارہ کتوں کے گروہ کے سردار کا نام ہے فرہنگ علم میں درج تھا-
بولنا بھی جرم تھا اور خاموشی بھی گناہ کے زمری میں آ تی تھے-
نہ کوئی گم ہونی کی رہ تھے نہ کوئی جلوے افروز ہونی کا جادو
چپ چاپ دور کسی تنہا ا جھاڑ بستی کو چلتی ہیں جہاں چپ کے سوا کوئی آواز نہ ہو -جہاں تہذیب نام کے کوئی بَد تہذیبی نو -
جہاں انسان نو ہو -جہاں تم نو -جہاں ہم نو ہوں-
جہاں خیال کےسوا -کوئی کور خیال نو ہوں-
جہاں زیست وجود کی بوجھ سی مبرا ہو - جہاں ذات کائنات کے کل کا جز ہو
جہاں ہونی اور نہ ہونی کے دیوار کے راستی
کن ف یکون کے رات کے ساتھ ملتی ہوں
جہاں ہستی اور مستی رات کے شام کے ساتھ طواف کری -
No comments:
Post a Comment