Friday, May 6, 2011

The Last Comrade of Sindh: History of Socialism in Sindh

کامریڈ سوبھو: خود پر اعتبار کی تصویر


کامریڈ سوبھو کو پاکستان بننے کے فوراً بعد گرفتار کر لیا گیا تھا
وہ اکیانوے سال کے ہو چکے ہیں اور ان برسوں میں سے تیرہ طویل سال انھوں نے ہر زمانے کی قید و بند میں گذارے ہیں۔
یہ سوبھو گیان چندانی ہیں، جن کی سالگرہ منگل کو حقوق انسانی کمیشن آف پاکستان اور پائلر کے اشتراک سے کراچی پریس کلب میں منائی گئی۔
وہ کہتے ہیں کہ جیل کے تیرہ برسوں میں صعوبتیں جو تھیں سو تھیں لیکن یہ ان کے پُر انہماک مطالعے کے سال بھی تھے۔ اسی دوران انھوں نے کارل مارکس اور دوسری مارکسی تحریروں کا تفصیلی مطالعہ کیا۔
وہ لاڑکانہ میں پیدا ہوئے اور جب پاکستان بنا تو ستائیس سال کے تھے۔ اس دوران کیا کیا نہیں ہوا لیکن وہ اس امید سے دستبردار نہیں ہوئے کہ یہ جو تاریک سرنگ ہے اس کے اختتام پر انہیں روشنی دکھائی دے رہی ہے۔
پاکستان بنا تو وہ ستائیس سال کے تھے لیکن چھ سال پہلے ہی کمیونسٹ پارٹی کے رکن بن چکے تھے۔ پاکستان بنتے ہی انہیں گرفتار کر لیا گیا اور ڈیڑھ ماہ تک جیل میں رکھ کر یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ وہ ہندو ہیں ہندوستان چلے جائیں، وہاں ان کے لیے مستقبل ہے وہ بڑے سیاستداں بن جائیں گے لیکن وہ نہیں گئے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں لیڈر بننا نہیں چاہتا تھا، میں تو کام کرنا چاہتا تھا، ان کے ساتھ جو کسان ہیں اور جو مظلوم ہیں۔‘
کامریڈ سوبھو اور ان کے دوست
سوبھو گیان چندانی سالگرہ کے موقع پر بی ایم کٹی، حقوقِ انسانی کمیشن کے امر ناتھ موٹو مل اور پریس کلب کے ایک عہدیدار کے ساتھ
سوبھو گیان چندانی جذباتی آدمی نہیں ہیں لیکن منگل کو وہ جذباتی ہو رہے تھے، ایسے جذباتی جو خود کو بے قابو نہیں ہونے دیتے۔ انھوں سالگرہ کے لیے جمع ہونے والوں سے کہا کہ ’آپ لوگوں نے مجھے پھر سے جگا دیا ہے، میری رگوں میں ایک نئی زندگی دوڑا دی ہے، میں اپنی جدوجہد سے کبھی دستبردار نہیں ہو سکتا۔‘
ان کے ساتھی بتاتے ہیں کہ ان کے بیٹے ڈاکٹر کانیو بیمار تھے اور ان کے پاس ان کے علاج کے پیسے نہیں تھے اس لیے انھوں نے اپنی آٹھ ہزار نایاب کتابیں لاڑکانے ہی کی سر شاہنواز لائبریری کو آٹھ لاکھ روپے میں فروخت کر دیں اب یہ کتابیں شاہنواز لائبریری کا حصہ ہیں۔
ان کا دکھ یہ نہیں کہ ان کی کتابیں ان سے دور ہو کر لائبریری میں کیوں گئیں۔ انھیں دکھ یہ ہے کہ انھیں یہ کتابیں لائبریری کو دینے کی بجائے بیچنا پڑیں۔
سوبھو فخر سے بتاتے ہیں کہ وہ رابندر ناتھ ٹیگور کے شاگرد ہیں۔ وے شانتی نکیتن میں رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’مجھے رابندر ناتھ ٹیگور سے وہ انہماک ملا جو سچائی کی نمو کے لیے درکار ہوتا ہے۔‘
وقت انسانوں کے ساتھ جو کر سکتا ہے وہی اس نے سوبھو کے ساتھ بھی کیا ہے۔ وہ دراز قامت اور پُر اعتماد تیز تیز چلنے والا آدمی اب ایک ضعیف اور لاغر ہو چکا ہے۔ اس کے چہرے پر پڑنے والی ہر جھُری کسی نہ کسی تاریخی واقعے کی امین ہے۔
کون ہو گا جس کی زندگی میں انفرادی اور خالص ذاتی دُکھ نہیں ہوتے لیکن وہ اپنے انفرادی ذاتی دکھوں پر بات نہیں کرتے۔ ان کا ’میں‘ اور ’میرا‘، ہم اور ہمارا میں گھل مِل گئے ہیں۔
سالگرہ کے موقع پر حقوق انسانی کے امر ناتھ موٹو مل نے کہا کہ ’میں تو سوبھو چند گیانی کے نام کے سائے میں بڑا ہوا ہوں۔ یہ میرے شہر کے نہیں میں ان کے شہر کا ہوں۔ لاڑلانہ پہلے ان کا ہے پھر میرا اور یہ میرے آئیڈیل ہیں۔‘
پائلر کے کرامت نے کہا کہ ’سوبھو ہمارا ایسا سرمایہ ہیں جو ہماری عزت اور فخر میں اضافہ کرتا ہے۔‘
مصنف اور دانشور بی ایم کٹی نے جنہیں بائیں بازو کی تاریخ کی زندہ شہادت کہنا چاہیے یہ واقعہ سنایا کہ ’جب پیپلز پارٹی بنی تو ذوالفقار علی بھٹو نے سوبھو صاحب سے کہا کہ وہ بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں، انھیں رجھانے والی پیشکشیں بھی کی گئیں لیکن وہ اپنی پارٹی سے الگ نہیں ہوئے اور پیپلز پارٹی میں شمولیت سے انکار کر دیا۔
سوبھو گیان چندانی کو ڈاکؤں نے بھی ہراساں کیا اور کہا کہ وہ ہاریوں کو بھڑکانے سے باز نہ آئے تو انھیں اغوا کر لیا جائے گا۔ اس سے یہ تو جانا ہی جا سکتا ہے کہ ڈاکو کس کے لیے کام کرتے ہیں۔
سوبھو کی سالگرہ نے اور کچھ کیا ہو نہ کیا ہو، اس نسل کے بہت سے لوگوں کو ان کامریڈوں سے ملنے اور دیکھنے کا ایک موقع ضرور فراہم کر دیا جن کے نام ایک ایسی حقیقت کا حصہ تھے جو اب کہانی بنتی جا رہی ہے

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/05/110504_comrade_sobho_as.shtml